جے آئی ٹی مکمل رپورٹ ریکارڈ پر نہ لائی جائے، مریم نواز کی استدعا جزوی منظور - WORLD NEWS

All news are available in this blogger.

Breaking

Home Top Ad

/a>

Post Top Ad

Responsive Ads Here
https://jumia.com/affiliate-program/banners/Jumia Ghana/The Best Smartphones/300X250.jpg

Thursday, 15 March 2018

جے آئی ٹی مکمل رپورٹ ریکارڈ پر نہ لائی جائے، مریم نواز کی استدعا جزوی منظور


  •                                                 

،  • اسلام آباد کی احتساب عدالت نے جے آئی ٹی کے دس والیمز کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کی شریف خاندان کی درخواست پر فیصلہ سنادیاجبکہ جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو ریکارڈ پر نہ لانے کی مریم نواز کی استدعا جزوی طور پر منظور کرلی گئی ۔ • • جے آئی ٹی کا تجزیہ عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنے گا۔ جے آئی ٹی میں ریکارڈ گواہوں کے بیانات عدالت میں قلمبند نہیں ہوں گے، نواز شریف کا واجد ضیاء کے بیان پر اعتراض بھی نوٹ کیا جائے گا۔ • جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کی درخواست پر سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔ • مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے اپنے دلائل میں کہا سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی رپورٹ نہیں، حاصل کیے گئے میٹریل کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا، جس میٹریل کو جے آئی ٹی رپورٹ میں شامل کیا گیا صرف اسے بطور شواہد پیش کیا جا سکتا ہے۔ • عدالت عظمیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کارروائی اور آبزرویشن سے ٹرائل کورٹ متاثر نہیں ہوگی، عدالت نے یہ کبھی نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کوئی آسمانی صحیفہ ہے، قانون کے تحت جے آئی ٹی رپورٹ کا والیم ایک اور 2 قابل قبول شہادت نہیں، اس مقدمے میں صرف 3,4اور5 والیمز متعلقہ ہوسکتے ہیں۔ • ایون فیلڈ ریفرنس الگ دائر کرنے کا حکم دیا گیا، مواد بھی صرف اس متعلق پیش کیا جا سکتا ہے، تفتیشی افسر ایسی کوئی دستاویز پیش نہیں کرسکتا جو اس نے خود تیار نہ کی ہو، اس حوالے سے اعلی عدالتوں کے لاتعداد فیصلے موجود ہیں، جو مواد تفتیشی افسر نے دوران تفتیش اکٹھا کیا، صرف وہی عدالت میں پیش کر سکتا ہے، عدالت عظمی نے حق دیا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراض اور تحفظات سے آگاہ کروں، کوئی ایسی چیز صفحہ مثل پر نہ لانے کی استدعا کروں جس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، تفتیشی افسر کی رائے سے عدالت کا متفق ہونا ضروری نہیں، حقائق اور رائے میں فرق ہوتا ہے، اس حوالے سے بھی عدالتی نظیریں موجود ہیں، تفتیشی افسر کسی دستاویز اور گواہ کے بیان کے بارے میں اپنی رائے نہیں دے سکتا۔ • نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے دلائل میں کہا آدھے والیم تو انہوں نے خود مان لیے ہیں کہ ریکارڈ پر آ سکتے ہیں، اس پر امجد پرویز نے کہا آپ غلط کہہ رہے ہیں، میں نے May be کے الفاظ استعمال کیے تھے۔ • مظفر عباسی نے کہا میں آپ کے دلائل کے دوران بالکل نہیں بولا، اب مجھے بات کرنے کا موقع دیں، جے آئی ٹی رپورٹ اور پولیس رپورٹ میں فرق ہے، واجد ضیا نے جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم میں تفتیشی افسر کا کردار ادا نہیں کیا۔ • واجد ضیا جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کے سربراہ تھے ، پیش کیے گئے عدالتی فیصلوں کا اطلاق موجودہ کیس پر نہیں ہوتا، سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ ہر کیس میں حالات اور حقائق مختلف ہوتے ہیں، دہشت گردی مقدمہ کے عدالتی فیصلے کا حوالہ وائٹ کالر کرائم کیس میں نہیں دیا جا سکتا، جے آئی ٹی رپورٹ ایک پبلک دستاویز ہے، جے آئی ٹی کا کام ایک کمیشن کی طرح کا تھا، جے آئی ٹی نے کمیشن کی طرح کام کیا، میٹریل اکٹھا کیا، اس کا جائزہ کیا اورفائنڈنگزدیں، جے آئی ٹی رپورٹ اس کیس میں اہم ثبوت ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ پر پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے انحصار کیا جسے کسی فورم پر بھی چیلنج نہیں کیا گیا، انہوں نے جے آئی ٹی پر اعتراض نہیں بلکہ اس کے قیام کا مطالبہ کیا اور اس کے سامنے پیش بھی ہوئے۔ • مریم نواز کے وکیل امجد پرویزاور نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفر عباسی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا جو بعد میں سنادیا گیا

No comments:

Post a Comment

Post Bottom Ad

Pages